لاہور ہائیکورٹ نے حق مہر میں لکھا گیا پانچ مرلے کا گھر بیوی کو دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی اپیل مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ حق مہر میں لکھی گئی ہر چیز شوہر بیوی کو دینے کا پابند ہے۔
مظفر گڑھ کے رہائشی محمد قیوم نے اپیل میں موقف اختیار کیا تھا کہ ریحانہ شمس سے شادی کی ہے، نکاح نامے میں حق مہر کے خانے میں تین تولہ طلائی زیور اور پانچ مرلے کا گھر لکھا گیا، بیوی نے گھر اپنے نام کرانے کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کیا، ٹرائل کورٹ نے بیوی کی استدعا منظور کرتے ہوئے فیصلہ اسکے حق میں دیا جو حقائق کے برعکس ہے لہذا عدالت فیصلے کو کالعدم قرار دے۔
جسٹس انوار حسین نے اپیل مسترد کرتے ہوئے 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا حق مہر میں لکھی گئی ہر چیز شوہر بیوی کو دینے کا پابند ہے، کسی بھی چیز سے شوہر کو استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا، نکاح نامے میں حق مہر کے خانے میں درج چیزیں بیوی کو دینے کا اگر وقت متعین نہیں تو شوہر بیوی کے مانگنے پر اسے دینے کا پابند ہے، مسلم شادی کی روح کے مطابق حق مہر دینا قرآن اور حدیث کی روشنی میں فرض ہے، حق مہر کی رقم شادی کے موقع پر ادا کی جاتی ہے تاہم پارٹیز کی رضامندی سے اس میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آرڈیننس کے تحت شادی سول کنٹریکٹ ہے اور سیکشن 5 کے تحت اسے رجسٹرڈ کرانا ضروری ہے، موجودہ کیس میں نکاح نامے کے کالم 16 میں مکان کے حوالے سے بات کی گئی یہ بات درست ہے کہ مکان کے انتقال کے حوالے سے کچھ لکھا نہیں گیا جو متنازع ہے ،سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں نکاح نامے کے کالم انڈرٹیکنگ ہے ،سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شوہر اس بات کا پابند ہے کہ نکاح نامے کے کالم 13 سے 16 میں درج چیزیں بیوی کو دے، اس موقع پر ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگ میں مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ عدالت درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کرتی ہے