My Publications
Podcast With Zaifiyat
Recent Events
لاہور ہائی کورٹ میں صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی کی کتاب ” من کی نگری ” کی تقریب رونمائی
خصوصی تحریر: پیر خواجہ میاں محمد عمر اشر ف عاصمی۔صاحبزادہ میاں حذیفہ اشرف عاصمی
لاہور ہائی کورٹ لاہور کے کراچی شہدا ہال میں منعقدہ اشرف عاصمی کی نئی تصنیف ” من کی نگری ” کی عظیم الشان تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے مختلف مقررین،قومی و سماجی رہنماؤں اور ممتاز قانون دانوں نے کتاب من کی نگری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب میں بڑی تعداد میں وکلا، سول سوسائٹی کے ارکان، علمائے کرام اور مختلف طبقہ ہائے زندگی کے لوگ شریک ہوئے، تقریب سے صاحب کتاب صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عشق رسول ﷺ ہمارئے خون میں شامل ہے اور من کی نگری درحقیقت اللہ پاک اور نبی پاک ﷺ سے بندہ مومن کے تعلق کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔ اشرف عاصمی کا کہنا تھا کہ
کائنات میں رب تعالیٰ نے سب سے اونچا مقام انبیا ء اکرام ؑ اور رسولوں ؑکو عطا فرمایا ہے۔روزنامہ نوائے وقت کے چیف نیوز ایڈیٹر دلاور چوہدری نے اپنے خطاب میں موجودہ گھٹن کے ماحول میں کتاب سے دوستی کے حوالے سے پوری قوم پر زور دیا کہ کتاب بینی سے ہی معاشرے میں پھیلی ہوئی کدورتیں، نفرتیں اور انتہاء پسندی کا خاتمہ کیا جاسکتاہے۔ دلاور چوہدری نے ملک بھر میں یونین کونسل کی سطع پرلائبریریوں کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔روزنامہ جنگ کے کالم نگار مظہر برلاس نے اپنے خطاب میں من کی نگری کو اہم کاوش قرار دیتے ہوئے اشرف عاصمی کو مبارکباد پیش کی اور روحانیت کے اسرار رموز پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔مظہر برلاس نے پاکستانی معاشرئے میں موجود ہیجان انگیزی کے خاتمہ کے لیے روحانی انقلاب کی ضرورت پر زور دیا۔لاہو رہائی کورٹ بار کے سابق صد ر و ممبر پاکستان بار کونسل پیر مسعود چشتی نے من کی نگری کی اشاعت پر اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کو مبارکباد دی اور کہا کہ جس طرح سے شعبہ قانون میں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنے ویڈیو لیکچرز اور قانون کی کتابوں کے ذریعہ سے عوام الناس کو قانون سے عام فہم انداز میں آگاہی دی ہے وہ یقینی طور پر ہماری ہائی کورٹ بار کے لیے قابل فخر ہے۔سابق صدر لاہو رہائی کورٹ بار و ممبر پاکستان بار کونسل حفیظ الرحمان چوہدری نے من کی نگری کو اِس نفسا نفسی کے دور میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا قرار دیا اور کہا کہ جس محنت اور جانفشانی کے ساتھ شعبہ قانون میں اشرف عاصمی کام کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق سیکرٹری و چیئرمین ایجوکیشن کمیٹی پنجاب بار کونسل بیرسٹر محمداحمد قیوم نے اپنے خطاب میں کہا کہ من کی نگری اور شعبہ قانون دونوں لازم ملزوم ہیں تاکہ سائلین کو انصاف کی فراہمی کے لیے ججز دل سے کام لیں اور اپنے دل کی آواز سن کر عوام الناس کو ریلیف دیں۔ بیرسٹر محمد احمد قیوم نے من کی نگری کتاب میں موجود ایک مضمون معاشرئے کے ناسور میں جو اشرف عاصمی نے حالات کے عکاسی کی ہے اُس کو بہت سراہا اور کہا کہ عوام الناس مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں حکومت نے کورٹ فیسوں کی مد میں ڈھائی سو فیصد اضافہ کردیا ہے۔
انھوں من کی نگری کی اشاعت پر اشرف عاصمی کو مبارکباد دی۔ علامہ محمد قاسم علوی نے من کی نگری کی اشاعت پر اشرف عاصمی کو مبارکباد دی اور کہا کہ شعبہ قانون میں جس انداز میں اشرف عاصمی خدمت خلق کر رہے ہیں اللہ پاک اِن کو اس کا اجر عطا فرمائے آمین۔علامہ قاسم علوی نے سپریم کورٹ کے ختم نبوت کے حوالے سے دیئے گئے فیصلے پر کٹری تنقید کی اور اِس فیصلے کو اسلام اور آئین پاکستان سے متصادم قرار دئے دیا۔ سید محمدمظاہر ہاشمی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اللہ پاک کی تلاش دراصل وہی لوگ کرتے ہیں جن کے من کی نگری میں خلوص و وفا ہو۔ وہ لوگ اپنی ذات کے غار حرا میں بیٹھ کر خود کو خالق کائنات کے سپرد کر دیتے ہیں ان پر مالک ِ کائنات کا سایہ انسان کے سائے کے ساتھ چلتا ہے۔ ان کی آواز میں مولا کریم اپنی آواز شامل کر دیتا ہے۔ فقر کی دنیا کو پہچاننا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے خدا،خودی اور کائنات کا جو پیغام دیا ہے۔ وہ ایک نکتہ پر آ ٹھہرتا ہے۔ اور وہ تقویٰ ہے۔ ڈاکٹر قراۃ العین کا کہنا تھا کہ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں لیکن عاشق رسول ﷺ بھی ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ اس کائنات کا سب سے پہلا ”وکیل“، اللہ تعالیٰ خود ہے۔ یا وکیل کا ورد کرنے والوں کی وکالت مولا کریم خود فرماتے ہیں۔ تاجدار ختم نبوت محسن انسانیت رونق و ارض و سما محمد مصطفی ﷺ نے سب …
VISIT OF HUMAN RIGHTS COMMITTEE LAHORE BAR ASSOCIATION BAKHSI (JAIL)KHAN OF SESSION COURT LAHORE Ashraf asmi chairman human rights committee lahore bar Visted bakeshi khana session court lahore.inquring problems of prisoner women and mozam khan vice chairman.m.ali malik.sultan anjim.shahid ghani azhar jutt . Abida ch .bibi manaza and ahsan ul haq members humen rights committee are also with him
.انسانی حقوق کمیٹی لاہور بار ایسوسی ایشن کے چےئرمین میاں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی زیرِ قیادت انسانی حقوق کمیٹی لاہور بار ایسوسی ایشن کا بخشی خانہ سیشن کورٹ لاہور کا دورہ
لاہور (پریس ریلیز )انسانی حقوق کمیٹی لاہور بار ایسوسی ایشن کے چےئرمین میاں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی زیرِ قیادت انسانی حقوق کمیٹی لاہور بار ایسوسی ایشن نے بخشی خانہ سیشن کورٹ لاہور کا دورہ کیا۔اس دورہ کے دوران مختلف مقدمات میں قید خواتین و مرقیدیوں سے ملاقات کی اور انصاف کی فراہمی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے قیدیوں کے خیالات کو سُنا۔بخشی خانے میں صفائی کے حالات بہت بہتر تھے۔ اِس موقع پر جڑانوالا کی رہائشی ایک خاتون نے کہا کہ وہ بے قصور ہے اور اُس کو چوری کے شعبے میں پولیس نے پکڑا ہے اور اُس کے مقدمے کی پیروی کرنے والا کوئی نہیں۔اور اُس کے خلاف لاہور کے مختلف تھانوں میں پانچ سے زائد ایف آئی آر درج ہیں۔اُسے بے گناہ ہونے کے باوجود ان مقدمات میں پھنسایا گیا ہے انسانی حقوق کمیٹی لاہور بار نے اِس خاتون کو قانونی امداد دینے کا فیصلہ کیا۔اِس کے علاہ قتل کے ایک مقدمے میں ایک قیدی خاتون نے بتایا کہ وہ بے گناہ ہے اور اُسے اور اُسکے شوہر کو بے گناہ طور پر تین ماہ سے قید میں رکھا ہوا ہے اور اُسے کے بچے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ اِسی طرح ایک قیدی خاتون کا کہنا تھا کہ فیملی کیس میں اُس نے اپنے حق میں ڈگری کروائی تھی لیکن اُس کے شوہر نے اُسکو جعلی کاغذات کی تیاری کے مقدمے میں گرفتار کروادیا ہے ۔دورہ کرنے والوں میں وائس چےئرمین معظم خان، بی بی منزہ، عابدہ چوہدری، محمد علی ملک ، احسان الحق رندھاوا،محمد سلطان انجم عدیل گوندل ،میاں شاہدغنی اور اظہر جٹ ایڈووکیٹس شامل تھے۔ اِس موقع پر تمام ممبران نے اِس بات کا اعادہ کیا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے وکلاء اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
Ashraf Asmi Adv is with Senator Ali Zafar Ex. president Supreme Court Bar
The marriage ceremony of the Hazifa Ashraf Asmi son of Mian Muhammad Ashraf Asmi Advocate, took place successfully yesterday. Various personalities from different fields of life participated in the wedding ceremony. Among them were Dr. Irfan Ali Zafar, Dr. Basim Zafar, Dr. Rizwan Ali Zafar, Hafiz Abdul Rauf, Chairman of Insaaf Foundation, Mian Muhammad Akram, H.S.C Trainer, Athar Chaudhry,Chairman of List University, Professor Rana Muhammad Ashfaq, Chairman C.T.A Punjab, Malik Javid Iqbal Mustafai, Mehtab Alam, Muhammad Ashfaq , Professor Dr. Arshad Mian, Ashar Hussain Additional Treasurer , King Edward Medical University Lahore, Professor Nawfal Muttaz, Professor Rana Khalid Mahmood, Respected Teacher Chaudhry Muhammad Aslam, Sajjad Azhar Commissioner Income Tax, Muhammad Awais Razi Chief Editor Roznama Taqat, Professor Dr. Khalid Naseer, University of Sargodha, Professor Dr. Sahibzada Shamim-ul-Rasool, University of Sargodha, Professor Rahel Haq, Pir Mushtaq Shah Al-Azhari, Sheikh Imiaz Advocate Former Secretary Sargodha Bar, Malik Waheed Awan Advocate, Atiq Naveed Sial Advocate, Ashfaq Sial Advocate, Mahmood Hussain, Asim Cheema Former President Lahore Bar, Munir Hussain Bhatti Member Punjab Bar Council & President Lahore Bar, M.H. Shaheen Former President Lahore Bar, Akif Tahir Advocate, Director Legal Punjab Assembly, Syed Mazhar Hashmi EX Vice Cenral President ATI, Allama Qasim Alvi, Dr. Ishaq Rahmani, Sajid Mahmood Advocate Hafizabad Bar, Javaid Bhatti Faisalabad Bar, Ali Ahmed Kiani Advocate, Mataz Danshwar and Jurist, Aamir Farooq Former Library Secretary Lahore Bar, Ashfaq Sahi, Zafar Iqbal Zafar, Ghulam Abbas, Ghulam Murtaza Advocate, Khawaja Irfan, Muzammil Ahasan Riaz Kahlon, Shahzad Alam Al-Fala Bank, Mian Tariq Yousaf, Mian Muhammad Nauman Tariq, Muhammad Aslam Chaudhry, Mian Muhammad Ismail, Hafiz Sahil Nazar, Muhammad Akhlaq, Shahzad Anjam,Mian , Hafiz Mohsin , also participated in the event.
انسانی حقو ق کے علمبردار صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کے صاحبزادے حذیفہ اشرف عاصمی کی شادی گذشتہ روز بخیرو خوبی انجام پائی۔ شادی کی تقریب میں زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ جن میں ڈاکٹر عرفان علی ظفر، ڈاکٹر باسم ظفر، ڈاکٹر رضوان علی ظفر،حافظ عبدالروف چیئرمین انصاف فاونڈیشن، میاں محمدا کرم ایچ ایس سی ٹرینر، لسٹ یونیورسٹی کے چئیرمین چوہدری ، پروفیسر رانا محمد اشفاق چیئرمین سی ٹی اے پنجاب، ملک جاوید اقبال مصطفائی،مہتاب عالم، محمد اشفاق پروفیسر ڈاکٹر ارشاد میاں، اشعر حسین ایڈیشنل ٹریرر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور، پروفیسر نوفل ممتاز، پروفیسر رانا خالد محمود، اُستاد محترم چوہدری محمد اسلم، سجاد اظہر کمشنر انکم ٹیکس، محمد اویس رازی چیف ایڈیٹر رروزنامہ طاقت، پروفیسر ڈاکٹر خالد نصیر یونیورسٹی آف سرگودہا، پروفیسر ڈاکٹر صاحبزادہ شمیم الرسول یونیورسٹی آف سرگودہا، پروفیسر راحیل حق ،پیر مشتاق شاہ الازہری، شیخ امیتاز ایڈووکیٹ سابق سیکرٹری سرگودہا بار، ملک وحید اعوان ایڈووکیٹ، عاطق نوید سیال ایڈووکیٹ، اشفاق سیال ایڈووکیٹ، محمود حسین، عاصم چیمہ سابق صدر لاہور بار، منیر حسین بھٹی ممبر پنجاب بار کونسل، ایم ایچ شاہین سابق صدر لاہور بار، عاکف طاہر ایڈووکیٹ ڈائریکٹر لیگل پنجاب اسمبلی، سید مظاہر ہاشمی، علامہ قاسم علوی، ڈاکٹر اسحاق رحمانی، ساجد محمود ایڈووکیٹ حافظ آباد بار، جاوید بھٹی فیصل آباد بار، علی احمد کیانی ایڈووکیٹ متاز دانشور و قانون دان،عامر فاروق سابق لائبریری سیکرٹری لاہور بار، اشفاق ساہی، ظفر اقبال ظفر، غلام عباس، غلام مرتضیٰ ایڈووکیٹ، خواجہ عرفان، معظم احسن ریاض کاہلوں، شہزاد عالم الفلاع بنک، میاں طارق یوسف، میاں محمد نعمان طارق،محمد اسلم چوہدری، میاں محمد اسماعیل، حافظ سہیل نذر، محمد اخلاق، شہزاد انجم حافظ محسن ودیگر نے شرکت کی۔
Lahore Bar Election 2024: Unforgettable Moments
لاہور بار کے سالانہ الیکشن ۔ وکلاء قیادت کیا سوچ رہی ہے اور عام وکلاء کی نومنتخب قیادت سے وابستہ امیدیں
خصوصی رپورٹ:
صاحبزادہ میاں اشرف عاصمی
علی احمد کیانی۔محمد عمر اشرف عاصمی۔ حذیفہ اشرف عاصمی محمد احمد رضا عاصمی
لاہور بار ایسوسی ایشن کی نومنتخب قیادت برائے سال 2024-2025 صدر منیر حسین بھٹی نائب صدور نثار بھٹی، راناعمران سرور، ملک بلال آصف، وارث علی گجر سیکرٹریز رانا نعیم طاہر،،راو تحسین شریف،جوائنٹ سیکرٹری رانا عمر فاروق فنانس سیکرٹری زبیر گجر، لائبریری سیکرٹری عمران سید، آڈیٹر روحامہ ایوب رانا پر مشتمل ہے۔ منیر حسین بھٹی 3834 ووٹ لیکر صدر منتخب ہوگئے،نثار اکبر بھٹی 2931 ووٹ لیکر سینئر نائب صدر،رانا عمران سرور 2651 ووٹ لیکر نائب صدر،بلال آصف ملک 2242ووٹ لیکر نائب صدر ماڈل ٹاون، وارث علی گجر 4212 ووٹ لیکر نائب صدر کینٹ سیٹ،رانا نعیم طاہر 4010 ووٹ لیکر سیکرٹری جنرل، راوء تحسین شریف 2799 ووٹ لیکر سیکرٹری، رانا عمر فاروق 2705ووٹ لے کرجوائنٹ سیکرٹری، زبیر گجر 5028 ووٹ لیکر فنانس سیکرٹری، عمران سید 3050ووٹ لے کر لائبریری سیکرٹری اورروحانہ ایوب رانا 3302ووٹ لے کر آڈیٹر منتخب ہوگئے،چئیرمین الیکشن بورڈ لاہور بار کے فرائض چوہدری عمران مسعود نے ادا کئے،نو مختلف نشستوں پر 36 امیدوار ان نے مقابلہ کیالاہور بار کے نومنتخب صدر منیر حسین بھٹی پنجاب بار کونسل کے
ممبر بھی ہیں اور وکلاء کے مسائل سے اچھی طرح آگاہ بھی ہیں۔ الیکشن ڈے کے حوالے سے شعبہ قانون سے وابستہ نوجوانوں، محمدعمراشرف عاصمی، حذیفہ اشرف عاصمی اور احمد رضا اشرف عاصمی نے سینئیر قانون دان اشرف عاصمی ایڈووکیٹ اور علی احمد کیانی ایڈووکیٹ کے ہمراہ
وکلا ء رہنماؤں سے وکلاء کے مسائل بار اور بنچ کے درمیان تعلقات ، لاہور میں عدالتوں کی تقسیم کیے جانے کی سازشوں اور ملکی سیاسی حالات پر گفتگو کی۔جن اہم وکلاء رہنماؤں سے گفتگو کی گئی
اُن میں پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین احسن بھون پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین حفیظ الرحمان چوہدری، سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل طاہر نصر اللہ وڑائچ، سابق وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل پیر مسعود چشتی، لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اشتیا ق اے خان، نائب صدر لاہور ہائی کورٹ بار ربیہ باجوہ، لاہور بار کے صدر رانا انتظار، ملک ارشد سابق صدر لاہور بار، سباق نائب صدر لاہور ہائی کورٹ بار سہیل شفیق چوہدری، ایم پی اے کنول لیاقت ایڈووکیٹ سابقہ ایم پی اے،سابق صدور لاہور ہائی کورٹ بار شفقت محمود چوہان،رانا ضیاء مقصود بٹر، عبدالرحمان، سابق سیکرٹری لاہور ہائی کورٹ بار بابر مرتضیٰ، پنجاب بار کونسل کے ممبر احمد قیوم، ممتاز قانون دان خالد چوہدری، علی احمد کیانی، صاحبزادہ اشرف عاصمی، ممتاز قانون دان عباس چڈھر سابق لائبریری سیکرٹری لاہور بار عامر فاروق، وکیل رہنماء ریحان قریشی نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وکلاء رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں وکلاء کو بدترین حالات میں کام کرنا پڑتا ہے اورانصاف تک رسائی کے لیے وکلاء ہی عام آدمی کی آواز ہیں۔ عام وکلاء کا یہ مطالبہ بھی بہت شدو مد سے پیش کیا گیا کہ لاہور کی عدالتوں کو تقسیم کرنے سے وکلاء اور سائلین رُل جائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاہور کی تمام عدالتوں کو ایک ہی جگہ منتقل کیا جائے لیکن اِس کے برعکس لاہور کی عدالتوں کو تقسیم کرکے سائلین اور وکلاء کے لیے مسائل میں اضافہ کردیا گیا۔ اِس لیے لاہور بار کی نومنتخب قیادت کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ لاہور کی عدالتوں کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے۔
ماضی میں بطور ممبر پنجاب بار کونسل موجودہ نومنتخب صدر لاہور بار منیر حسین بھٹی نے وکلاء کی صفوں میں گھسے جعلی ڈگری کے حامل جعلی وکلاء کے خلاف بھر پور آپریشن کیا تھا جس کے ثمرات وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ سامنے آرہے ہیں موجودہ حالات میں ضروری کے ہے کہ نوجوان وکلاء کے مسائل حال کیے جائیں۔ انصاف انصاف جج صاحب انصاف: یہ ہیں وہ الفاظ جو ہر وکیل سارا دن عدالتوں میں اپنے کلائنٹ کے لیے ادا کرتے ہیں۔ ہر وکیل کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے کلائنٹ کو انصاف مل جائے۔ کتنا عظیم کام ہے کتنا بڑا کام ہے جو وکلاء کو تفویض ہوا ہے۔ الوکیل خالق کا نام ہے۔ پاکستان میں متحدہ ہندوستان کے وقت سے انگریز کا قانون کا لاگو ہے۔ اِن قوانین کو اسلامی قوانین کے تحت ڈھالنے کی سعی کی جاتی رہی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق کوئی بھی قانون اسلام کے متصادم نہیں بن سکتا۔ کتابوں میں لکھے ہوئے قوانین کی حد تک تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ امن و آشتی کا منبع ہو نا چاہیے لیکن حقیقت حال مختلف ہے۔
وکلاء کی جانب سے ہمیشہ قانون کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے۔ وکلاء معاشرئے کا وہ حساس طبقہ ہیں کہ جن کی بدولت ریاستی اداروں کو اپنی حدود قیود میں رہنا پڑتا ہے۔ لیکن معاشرئے میں اقربا پروری، مادیت پرستی نے وہ حالات پیدا کیے ہیں کہ ہر شعبہ زندگی میں کرپشن کا سمندر دیکھائی دیتا ہے۔اِس ملک کی سول و فوجی بیورکریسی کی جائیدادوں کا اگر کھوج لگایا جائے۔ ملک میں ڈاکٹروں کے رہن سہن کو دیکھا جائے۔ سیاستدانوں کے موج میلے بھی سب کے سامنے ہیں۔اِن حالات میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے۔
نومنتخب صدر لاہور بار منیر حسین بھٹی کی بطور ممبر پنجاب بار کونسل کارکردگی دیکھی جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ لاہور بار کے وکلاء کے مسائل بھی وہ حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، بطور ممبر پنجاب بار کونسل اُنھوں نے جعلی ڈگری کے حامل وکلاء کے خلاف بھر پور کام کیا۔
جواں جذبوں کے امین پنجاب بار کونسل کے غیور ممبر جو کہ چیئرمین انٹی کرپشن کمیٹی تھے نے وہ کام کر دیکھایا کہ جو موجودہ قحط الرجال کے دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جناب منیر بھٹی نے پنجاب بھر کے وکلاء کی ڈگریوں کی ویری فکیشن کروانے کا مصمم ارادہ کیا۔ اِس حوالے سے جب چیف جسٹس آف پاکستان تک اِس عظیم کام کی خبر پہنچی تو جناب چیف جسٹس نے از خود نوٹس کے تحت وکلاء کے لائسنس اور ڈگریوں کی پڑتال کا حکم صادر فرمایا۔ بہت سے سرکاری ملازم جو کہ وکالت کا لائسنس رکھتے تھے اُنکے لائسنس کینسل کر دئیے گئے۔ بہت سے لوگ جو ایل ایل بی کی جعلی ڈگری کے حامل تھے اُن کے لائسنس بھی کینسل کروائے گئے اور اُن کے خلاف پرچے درج کروائے گئے ہیں۔ اِس طرح پنجاب میں تیرہ ہزار وکالت کے لائسنس کینسل ہوئے ہیں۔ چھ سو اُنتیس جعلی ڈگری کے حامل وکلاء کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ جناب منیر بھٹی کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کے صاحبزادئے کی ایل ایل بی کی ڈگری جعلی ثابت ہوئی ہے اُس کو بچانے کے لیے اعلیٰ حکام کود پڑئے لیکن بھٹی صاحب کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ یوں ایک سابق چیف جسٹس کے بیٹے کے خلاف پرچہ بھی درج ہوا ہے اور اُس کا لائسنس بھی کینسل ہوا ہے۔ اِسی طرح پنجاب کی مختلف بارز کے کچھ موجودہ اور سابقہ عہدئے دار بھی جعلی ڈگری کے حامل تھے اُن کے خلاف بھی قانونی کاروائی کی گئی ہے۔ اِسی طرح کئی سابق ممبر پنجاب اسمبلی تھے اُن کے خلاف بھی کاروائی کی گئی ہے۔
منیر بھٹی کے ساتھ ملاقات میں جو بات سب سے زیادہ اہم تھی وہ یہ کہ اُن کا کہنا تھا کہ اِس طرح کے لوگوں نے ہمارئے وکالت کے نوبل پروفیشن کو بدنام کیا ہے میں نے اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کی ہے کہ اپنے پیشے کی عزت کو بحال کروایا جائے اور جو لوگ اِس عظیم پیشے کے لیے بدنامی کاسبب بنے ہیں اُن کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اور اُنھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اب بطور صدر لاہور بار منیر حسین بھٹی کا امتحان ہے کہ وہ کیسے وکلاء کی امیدوں پر پورا اُترتے ہیں۔
لاہور بار میں اس وقت بہت سے مسائل ہیں جن کا سامنا وکلاء اور سائلین کو درپیش ہے،اِگر نوجوان وکلاء کو
عدالتوں میں بطور معاون اگر لگا دیا جائے اور اِسے انٹرن شپ کا نام دے دیا جائے۔اور نوجوانوں کو کم ازکم تیس ہزار روپے اعزازیہ دیا جائے۔اِس انٹرن شپ کا دورانیہ کم ازکم ایک سال رکھا جائے۔ اِس طرح نوجوانوں کو سیکھنے کا موقع ملے گا اور معاشی دشواریوں کا مقابلا بھی کر سکیں گے۔ اِسی طرح ایس ای سی پی کے قوانین کے مطابق ہر کمپنی ایک قانونی مشیر رکھنے کی پابند ہے اِس شق پر اِس کی روح کے مطابق عمل کروایا جائے۔وکلاء کے لیے چمبرز کی الاٹمنٹ کو شفاف بنایا جائے۔ اور نئے چیمبرز کی تعمیر کے لیے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔عدالتوں میں سائلین کے لیے بیٹھنے کا انتظام ہونا چاہیے اور پینے کا صاف پانی بھی میسر ہونا چاہیے۔ٹاوٹ سسٹم کے خاتمے کے لیے وکلاء کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ٹاوٹوں اور جعلی وکلاء کا سدِ باب کرئے۔بار اور بنچ کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے بھر پور جدوجہد کی جائے۔اکثر وکلاء گھر کی سہولت سے محروم ہیں۔ ساری زندگی قانون کی بالادستی کے لیے کام کرنے والے مسائل کا شکار رہتے ہیں اِس لیے لاہور کے وکلاء کے لیے صحافی کالونی کی طرز پر وکلاء کالونی بنائی جائے۔ایک لاکھ سے زائد وکیل فعال پریکٹس میں ہیں لیکن زیادہ فیسیں لینے والے اور جن کا بہت زیادہ کام چل رہا ہو اُن کی تعداد اُنگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اِس لیے لاہور بار ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے والے وکلاء کو ماہانہ اعزازیہ دے۔وکلاء اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر قانون کی بالادستی کے لیے کام کرتے ہیں۔ لاہور بار ہر وکیل کی فری انشورنس کروائے تاکہ کسی ناگہانی حادثے کی صورت میں وکیل کے وارثان کو معاشی موت سے بچایا جا سکے۔ موجودی صدر لاہور بارمنیر حسین بھٹی نہایت زیرک محنتی وکیل ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ وکلاء کو درپیش مسائل کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں چھوڑیں گے۔
منیر حسین بھٹی یہ نومنتخب صدر ہیں
لاہور بار کے سالانہ الیکشن ۔ وکلاء قیادت کیا سوچ رہی ہے اور عام وکلاء کی نومنتخب قیادت سے وابستہ امیدیں
خصوصی رپورٹ:
صاحبزادہ میاں اشرف عاصمی
علی احمد کیانی۔محمد عمر اشرف عاصمی۔ حذیفہ اشرف عاصمی محمد احمد رضا عاصمی
لاہور بار ایسوسی ایشن کی نومنتخب قیادت برائے سال 2024-2025 صدر منیر حسین بھٹی نائب صدور نثار بھٹی، راناعمران سرور، ملک بلال آصف، وارث علی گجر سیکرٹریز رانا نعیم طاہر،،راو تحسین شریف،جوائنٹ سیکرٹری رانا عمر فاروق فنانس سیکرٹری زبیر گجر، لائبریری سیکرٹری عمران سید، آڈیٹر روحامہ ایوب رانا پر مشتمل ہے۔ منیر حسین بھٹی 3834 ووٹ لیکر صدر منتخب ہوگئے،نثار اکبر بھٹی 2931 ووٹ لیکر سینئر نائب صدر،رانا عمران سرور 2651 ووٹ لیکر نائب صدر،بلال آصف ملک 2242ووٹ لیکر نائب صدر ماڈل ٹاون، وارث علی گجر 4212 ووٹ لیکر نائب صدر کینٹ سیٹ،رانا نعیم طاہر 4010 ووٹ لیکر سیکرٹری جنرل، راوء تحسین شریف 2799 ووٹ لیکر سیکرٹری، رانا عمر فاروق 2705ووٹ لے کرجوائنٹ سیکرٹری، زبیر گجر 5028 ووٹ لیکر فنانس سیکرٹری، عمران سید 3050ووٹ لے کر لائبریری سیکرٹری اورروحانہ ایوب رانا 3302ووٹ لے کر آڈیٹر منتخب ہوگئے،چئیرمین الیکشن بورڈ لاہور بار کے فرائض چوہدری عمران مسعود نے ادا کئے،نو مختلف نشستوں پر 36 امیدوار ان نے مقابلہ کیالاہور بار کے نومنتخب صدر منیر حسین بھٹی پنجاب بار کونسل کے
ممبر بھی ہیں اور وکلاء کے مسائل سے اچھی طرح آگاہ بھی ہیں۔ الیکشن ڈے کے حوالے سے شعبہ قانون سے وابستہ نوجوانوں، محمدعمراشرف عاصمی، حذیفہ اشرف عاصمی اور احمد رضا اشرف عاصمی نے سینئیر قانون دان اشرف عاصمی ایڈووکیٹ اور علی احمد کیانی ایڈووکیٹ کے ہمراہ
وکلا ء رہنماؤں سے وکلاء کے مسائل بار اور بنچ کے درمیان تعلقات ، لاہور میں عدالتوں کی تقسیم کیے جانے کی سازشوں اور ملکی سیاسی حالات پر گفتگو کی۔جن اہم وکلاء رہنماؤں سے گفتگو کی گئی
اُن میں پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین احسن بھون پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین حفیظ الرحمان چوہدری، سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل طاہر نصر اللہ وڑائچ، سابق وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل پیر مسعود چشتی، لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اشتیا ق اے خان، نائب صدر لاہور ہائی کورٹ بار ربیہ باجوہ، لاہور بار کے صدر رانا انتظار، ملک ارشد سابق صدر لاہور بار، سباق نائب صدر لاہور ہائی کورٹ بار سہیل شفیق چوہدری، ایم پی اے کنول لیاقت ایڈووکیٹ سابقہ ایم پی اے،سابق صدور لاہور ہائی کورٹ بار شفقت محمود چوہان،رانا ضیاء مقصود بٹر، عبدالرحمان، سابق سیکرٹری لاہور ہائی کورٹ بار بابر مرتضیٰ، پنجاب بار کونسل کے ممبر احمد قیوم، ممتاز قانون دان خالد چوہدری، علی احمد کیانی، صاحبزادہ اشرف عاصمی، ممتاز قانون دان عباس چڈھر سابق لائبریری سیکرٹری لاہور بار عامر فاروق، وکیل رہنماء ریحان قریشی نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وکلاء رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں وکلاء کو بدترین حالات میں کام کرنا پڑتا ہے اورانصاف تک رسائی کے لیے وکلاء ہی عام آدمی کی آواز ہیں۔ عام وکلاء کا یہ مطالبہ بھی بہت شدو مد سے پیش کیا گیا کہ لاہور کی عدالتوں کو تقسیم کرنے سے وکلاء اور سائلین رُل جائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاہور کی تمام عدالتوں کو ایک ہی جگہ منتقل کیا جائے لیکن اِس کے برعکس لاہور کی عدالتوں کو تقسیم کرکے سائلین اور وکلاء کے لیے مسائل میں اضافہ کردیا گیا۔ اِس لیے لاہور بار کی نومنتخب قیادت کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ لاہور کی عدالتوں کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے۔
ماضی میں بطور ممبر پنجاب بار کونسل موجودہ نومنتخب صدر لاہور بار منیر حسین بھٹی نے وکلاء کی صفوں میں گھسے جعلی ڈگری کے حامل جعلی وکلاء کے خلاف بھر پور آپریشن کیا تھا جس کے ثمرات وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ سامنے آرہے ہیں موجودہ حالات میں ضروری کے ہے کہ نوجوان وکلاء کے مسائل حال کیے جائیں۔ انصاف انصاف جج صاحب انصاف: یہ ہیں وہ الفاظ جو ہر وکیل سارا دن عدالتوں میں اپنے کلائنٹ کے لیے ادا کرتے ہیں۔ ہر وکیل کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے کلائنٹ کو انصاف مل جائے۔ کتنا عظیم کام ہے کتنا بڑا کام ہے جو وکلاء کو تفویض ہوا ہے۔ الوکیل خالق کا نام ہے۔ پاکستان میں متحدہ ہندوستان کے وقت سے انگریز کا قانون کا لاگو ہے۔ اِن قوانین کو اسلامی قوانین کے تحت ڈھالنے کی سعی کی جاتی رہی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق کوئی بھی قانون اسلام کے متصادم نہیں بن سکتا۔ کتابوں میں لکھے ہوئے قوانین کی حد تک تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ امن و آشتی کا منبع ہو نا چاہیے لیکن حقیقت حال مختلف ہے۔
وکلاء کی جانب سے ہمیشہ قانون کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے۔ وکلاء معاشرئے کا وہ حساس طبقہ ہیں کہ جن کی بدولت ریاستی اداروں کو اپنی حدود قیود میں رہنا پڑتا ہے۔ لیکن معاشرئے میں اقربا پروری، مادیت پرستی نے وہ حالات پیدا کیے ہیں کہ ہر شعبہ زندگی میں کرپشن کا سمندر دیکھائی دیتا ہے۔اِس ملک کی سول و فوجی بیورکریسی کی جائیدادوں کا اگر کھوج لگایا جائے۔ ملک میں ڈاکٹروں کے رہن سہن کو دیکھا جائے۔ سیاستدانوں کے موج میلے بھی سب کے سامنے ہیں۔اِن حالات میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے۔
نومنتخب صدر لاہور بار منیر حسین بھٹی کی بطور ممبر پنجاب بار کونسل کارکردگی دیکھی جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ لاہور بار کے وکلاء کے مسائل بھی وہ حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، بطور ممبر پنجاب بار کونسل اُنھوں نے جعلی ڈگری کے حامل وکلاء کے خلاف بھر پور کام کیا۔
جواں جذبوں کے امین پنجاب بار کونسل کے غیور ممبر جو کہ چیئرمین انٹی کرپشن کمیٹی تھے نے وہ کام کر دیکھایا کہ جو موجودہ قحط الرجال کے دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جناب منیر بھٹی نے پنجاب بھر کے وکلاء کی ڈگریوں کی ویری فکیشن کروانے کا مصمم ارادہ کیا۔ اِس حوالے سے جب چیف جسٹس آف پاکستان تک اِس عظیم کام کی خبر پہنچی تو جناب چیف جسٹس نے از خود نوٹس کے تحت وکلاء کے لائسنس اور ڈگریوں کی پڑتال کا حکم صادر فرمایا۔ بہت سے سرکاری ملازم جو کہ وکالت کا لائسنس رکھتے تھے اُنکے لائسنس کینسل کر دئیے گئے۔ بہت سے لوگ جو ایل ایل بی کی جعلی ڈگری کے حامل تھے اُن کے لائسنس بھی کینسل کروائے گئے اور اُن کے خلاف پرچے درج کروائے گئے ہیں۔ اِس طرح پنجاب میں تیرہ ہزار وکالت کے لائسنس کینسل ہوئے ہیں۔ چھ سو اُنتیس جعلی ڈگری کے حامل وکلاء کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ جناب منیر بھٹی کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کے صاحبزادئے کی ایل ایل بی کی ڈگری جعلی ثابت ہوئی ہے اُس کو بچانے کے لیے اعلیٰ حکام کود پڑئے لیکن بھٹی صاحب کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ یوں ایک سابق چیف جسٹس کے بیٹے کے خلاف پرچہ بھی درج ہوا ہے اور اُس کا لائسنس بھی کینسل ہوا ہے۔ اِسی طرح پنجاب کی مختلف بارز کے کچھ موجودہ اور سابقہ عہدئے دار بھی جعلی ڈگری کے حامل تھے اُن کے خلاف بھی قانونی کاروائی کی گئی ہے۔ اِسی طرح کئی سابق ممبر پنجاب اسمبلی تھے اُن کے خلاف بھی کاروائی کی گئی ہے۔
منیر بھٹی کے ساتھ ملاقات میں جو بات سب سے زیادہ اہم تھی وہ یہ کہ اُن کا کہنا تھا کہ اِس طرح کے لوگوں نے ہمارئے وکالت کے نوبل پروفیشن کو بدنام کیا ہے میں نے اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کی ہے کہ اپنے پیشے کی عزت کو بحال کروایا جائے اور جو لوگ اِس عظیم پیشے کے لیے بدنامی کاسبب بنے ہیں اُن کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اور اُنھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اب بطور صدر لاہور بار منیر حسین بھٹی کا امتحان ہے کہ وہ کیسے وکلاء کی امیدوں پر پورا اُترتے ہیں۔
لاہور بار میں اس وقت بہت سے مسائل ہیں جن کا سامنا وکلاء اور سائلین کو درپیش ہے،اِگر نوجوان وکلاء کو
عدالتوں میں بطور معاون اگر لگا دیا جائے اور اِسے انٹرن شپ کا نام دے دیا جائے۔اور نوجوانوں کو کم ازکم تیس ہزار روپے اعزازیہ دیا جائے۔اِس انٹرن شپ کا دورانیہ کم ازکم ایک سال رکھا جائے۔ اِس طرح نوجوانوں کو سیکھنے کا موقع ملے گا اور معاشی دشواریوں کا مقابلا بھی کر سکیں گے۔ اِسی طرح ایس ای سی پی کے قوانین کے مطابق ہر کمپنی ایک قانونی مشیر رکھنے کی پابند ہے اِس شق پر اِس کی روح کے مطابق عمل کروایا جائے۔وکلاء کے لیے چمبرز کی الاٹمنٹ کو شفاف بنایا جائے۔ اور نئے چیمبرز کی تعمیر کے لیے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔عدالتوں میں سائلین کے لیے بیٹھنے کا انتظام ہونا چاہیے اور پینے کا صاف پانی بھی میسر ہونا چاہیے۔ٹاوٹ سسٹم کے خاتمے کے لیے وکلاء کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ٹاوٹوں اور جعلی وکلاء کا سدِ باب کرئے۔بار اور بنچ کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے بھر پور جدوجہد کی جائے۔اکثر وکلاء گھر کی سہولت سے محروم ہیں۔ ساری زندگی قانون کی بالادستی کے لیے کام کرنے والے مسائل کا شکار رہتے ہیں اِس لیے لاہور کے وکلاء کے لیے صحافی کالونی کی طرز پر وکلاء کالونی بنائی جائے۔ایک لاکھ سے زائد وکیل فعال پریکٹس میں ہیں لیکن زیادہ فیسیں لینے والے اور جن کا بہت زیادہ کام چل رہا ہو اُن کی تعداد اُنگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اِس لیے لاہور بار ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے والے وکلاء کو ماہانہ اعزازیہ دے۔وکلاء اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر قانون کی بالادستی کے لیے کام کرتے ہیں۔ لاہور بار ہر وکیل کی فری انشورنس کروائے تاکہ کسی ناگہانی حادثے کی صورت میں وکیل کے وارثان کو معاشی موت سے بچایا جا سکے۔ موجودی صدر لاہور بارمنیر حسین بھٹی نہایت زیرک محنتی وکیل ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ وکلاء کو درپیش مسائل کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں چھوڑیں گے۔
منیر حسین بھٹی یہ نومنتخب صدر ہیں
لاہور بار کے الیکشن کے حوالے سے حذیفہ ،عمر اور احمد رضا نے خصوصی ریکارڈنگ کی جو کہ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی گئی ہے الیکشن کی رپورٹ کو بھی محترم اویس رازی صاحب نے روزنامہ طاقت مورخہ 16.1.2024 میں پبلش فرمایا۔
MY PHILOSOPHY:
“I WILL FIGHT TO PROTECT YOUR LEGAL RIGHTS UNDER THE LAW.”
I have a lot of training and certification as a lawyer!
A self motivated person with diverse educational and professional background in the fields of law, education & training, economics and administration. A high achiever with excellent leadership and motivational qualities.
Awards and Achievements:
- Honored Gold Medal From Lahore High Court Bar Association Lahore.
- Honored with Human Rights Award from Lahore Bar Association in 2011.
- Honored with certificate and award by the Controller of Examination Punjab University Lahore for performing services in the field of Business education and Information Technology.
- General Secretary Dramatic Society of Govt. College of Commerce, Sargodha.
- Chairman Human Rights Committee Lahore High Court bar Lahore(2016-2019)
- CO-CHAIRMAN HUMAN RIGHTS COMMITTEE LAHORE HIGH COURT BAR ASSOCATION (2015-2016)
- VICE CHAIRMAN JAIL & PRISONS REFORMS AND MON-TERNING COMMITTEE PUNJAB,LAHORE HIGH COURT BAR ASSOCIATION.(2014-2015)
- CHAIRMAN HUMAN RIGHTS COMMITTEE LAHORE BAR ASSOCIATION (2014-2015)
- COULMN WRITER QANOONI MASHWERAY IN THE FAMILY MAGIZNE OF NAW E WAQAT GROUP
- Senior Vice President World Columnist Club
- Chairman Local Zakat & Ushar Committee Govt. of Punjab Daras Baray Mian sb Moghulpura Lahore (2010 – 2018)
University’s like this little world, a bubble of time separate from everything before and everything after.
Professional Membership:
- Member Lahore Bar Association
- Member Lahore High Court Bar Association
- Member Lahore Tax Bar Association
- Associate Member TXDLA of USA
Workshops and Seminars:
- Arranged Educational workshops as Director Education Punjab under the auspices of Mustafai Foundation Pakistan.
- Supervised Teachers Training and Leadership Workshops at Punjab Public Library Lahore.
- Supervised Seminar on the concept of “Welfare State in Islam” at Al Hamra Hall Lahore Presided by Federal Minister for Parliamentary Affairs.
- Supervised Seminar on the concept of “Role of Sufia in Society” at Al Hamra Hall Lahore.
- Presided by Secretary Auqaf & Religious Department Govt. of Punjab.Attended numerous seminars and workshops on education, Islamic economics, social justice, narcotics control, etc.
Serious car crash →
Brain injury →
Truck accidents →
Semi-truck collision →
Motorcycle accidents →
Wrongful Death →
“Every mountain top is within reach if you just keep climbing.”
Law is complicate matter. It can cause you a big problem
if you ignore it. Let us help you!.
In the realm of legal scholarship, the significance of precedent-setting decisions cannot be overstated. These decisions, often encapsulating the crux of complex legal issues, serve as pillars upon which the edifice of jurisprudence stands. Ashraf Asmi Advocate, a seasoned legal professional, has meticulously compiled a comprehensive book titled “Landmark Judgements in Civil Cases,” showcasing the profound contributions of MR. Justice Shahid Bilal Hassan from the Lahore High Court Lahore.
Overview of the Book:
Ashraf Asmi Advocate’s book is a seminal work that delves into the jurisprudential landscape shaped by the erudite judgments of MR. Justice Shahid Bilal Hassan. The compilation focuses exclusively on civil cases, providing readers with an in-depth exploration of the legal intricacies involved in each decision. Through a meticulous selection process, Ashraf Asmi has curated a collection that not only highlights the prowess of the esteemed justice but also serves as an invaluable resource for legal practitioners, scholars, and enthusiasts seeking profound insights into civil law.
Structured Analysis:
The book adopts a structured approach, with each chapter dedicated to a specific judgment authored by MR. Justice Shahid Bilal Hassan. Ashraf Asmi takes readers on a journey through these landmark decisions, unraveling the crux of each case and shedding light on the pivotal legal issues addressed. The narrative is not only accessible to legal professionals but also to those with a keen interest in understanding the evolution of civil law jurisprudence in the Lahore High Court.
In-depth Examination of Judgments:
Ashraf Asmi’s compilation goes beyond a mere recitation of judgments; it provides an in-depth examination of the legal reasoning, principles, and precedents cited by MR. Justice Shahid Bilal Hassan in each case. This approach allows readers to grasp the nuances of the decisions, fostering a profound understanding of the legal doctrines that underpin them. The author’s insightful commentary adds an extra layer of comprehension, making the book an indispensable guide for both practitioners and academics.
Practical Utility:
The practical utility of the book extends to legal professionals engaged in civil practice, providing them with a valuable reference tool to navigate and argue cases effectively. Moreover, law students and researchers will find the compilation to be a treasure trove of knowledge, offering a unique perspective on the evolution of civil law in Pakistan.
Conclusion:
“Landmark Judgements in Civil Cases” by Ashraf Asmi Advocate stands as a testament to the rich tapestry of legal wisdom woven by MR. Justice Shahid Bilal Hassan. The book not only pays homage to the jurist’s intellectual contributions but also serves as a beacon for those navigating the intricate terrain of civil law. Ashraf Asmi’s compilation is poised to become an authoritative resource, contributing significantly to the legal scholarship landscape in Pakistan.
آج کے روزنامہ نوائے وقت مورخہ 25.01.224 کے ادارتی صفحہ پر میرا کالم ملاحظہ فرمائیں۔ لاہور کی عدالتوں کی تقسیم۔ حقائق؟
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
انصاف انصاف جج صاحب انصاف: یہ ہیں وہ الفاظ جو ہر وکیل سارا دن عدالتوں میں اپنے کلائنٹس کے لیے ادا کرتے ہیں۔ ہر وکیل کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے کلائنٹ کو انصاف مل جائے۔ کتنا عظیم کام ہے کتنا بڑا کام ہے جو وکلاء کو تفویض ہوا ہے۔ الوکیل خالق کا نام ہے۔ پاکستان میں متحدہ ہندوستان کے وقت سے انگریز کا قانون لاگو ہے۔ اِن قوانین کو اسلامی قوانین کے تحت ڈھالنے کی سعی کی جاتی رہی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق کوئی بھی قانون اسلام کے متصادم نہیں بن سکتا۔ کتابوں میں لکھے ہوئے قوانین کی حد تک تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ امن و آشتی کا منبع ہو نا چاہیے لیکن حقیقت حال مختلف ہے۔ قوانین کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں لیکن پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو با لکل اسی طرح جس طرح انگریز نے اِس خطے میں حکومت کی۔
لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے گنجان آباد ہے۔ گڈ گورننس نام کی کوئی شے نہ ہونے کا شاخسانہ یہ ہے کہ لاہور میں تجاوزات کی بھر مار ہے ٹریفک کے مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ بیان سے باہر۔۔ لاہور میں جب میٹرو بس اور اورنج ٹرین چلائی گئی تو اِن منصوبوں کی سخت مخالفت کی گئی لیکن وقت ثابت کر رہا ہے کہ لاہور کے شہریوں کے لیے یہ کتنا کامیاب منصوبہ ثابت ہوا ہے۔
لاہور کی ا نتظامی تقسیم میں جو تحصیلیں وجود میں آچکی ہیں ان تحصیلوں میں بھی سول کیسیز کی عدالتیں قائم کرنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔ اِس ضمن میں ماڈل ٹاون کچہری میں سول کیسز ایوان عدل سے ٹرانسفر کردیے گئے اِسی طرح رائے ونڈ میں بھی تحصیل کورٹس قائم کیے جانے کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن کردیا گیا ہے۔ ماڈل ٹاون، ضلع کچہری، کینٹ کورٹس میں پہلے سے مجسٹریٹ کی عدالتیں اپنے اپنے علاقے کی حدود میں قائم تھانوں کے مقدمات کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔اب لاہور ہائی کورٹ نے ماڈل ٹاون کچہری میں سول مقدمات جو اِسکے تھانوں کی حدود میں آتے ہیں وہ ایوان عدل سے وہاں ٹرانسفر کردیئے ہیں اور اِس علاقے کے نئے دائر ہونے والے کیس بھی اب ماڈل ٹاون کچہری میں دائر ہونگے۔ اِسی طرح باقی کی تحصیل کورٹس میں بتدریج یہ عمل ہوگا
سول کیسیز کی کمپوزیشن مختلف ہوتی ہے اور مجسٹریٹ کے پاس چلنے والے کیسوں کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ سول کیسوں میں سائل نے خود کیس کی شہادت کے دوران لازمی طور پر پیش ہونا ہوتا ہے باقی جو پراسیس چلتا ہے اُس میں و کیل کا ایکٹیو کردار ہوتا ہے۔ نوٹس کروائے جاتے ہیں جتنے بھی کیس کے فریقین ہیں سب کو ہربار نوٹس کروایا جاتا ہے جب تک تمام فریقین عدالت میں پیش نہ ہوجائیں یا جو پیش نہ ہوئے ہوں اُن کی حد تک یکطرفہ نہ کردیا جائے۔اِس طرح ان کیسوں میں وکیل نے خود پیش ہونا ہوتا ہے اِس کے بعد کیس کے جواب کے معاملات چلنا شروع ہوتے ہیں اِس میں بھی مختلف مدارج طے کرنا ہوتے ہیں دونوں طرف کے وکیل اپنے اپنے کیس پر گہری نظر رکھے ہوتے ہیں کیونکہ سول پروسیجر کوڈ 1898 جس کے تحت سول کیسوں کی سماعت ہوتی ہے وہ ایک گورکھ دھند ہ ہے اور یوں سول کیسوں کی سماعت اُس کی شہادتوں کا پراسیس اور پھر بحث وکلاء کو اپنی طرف مرکوز کیے رکھتی ہے۔ تحصیل سطع پر فوجداری کیسوں کی مجسٹریٹ کی عدالت جو کام کرتی ہے اُن مقدمات کی نوعیت یکسر مختلف ہوتی ہے۔ اُس میں وکیل کی حاضری بہت کم ہوتی ہے۔ جیسے ہی ماڈل ٹاون کی کچہری میں سول مقدمات ٹرانسفر کیے گئے ہیں اب ایک جج صاحب کی کاز لسٹ بتا رہی ہے کہ اُن کے پاس ڈھائی سو کیس لگے ہیں گویا کہ دونوں اطراف کے وکلاء
صاحبان جو پیش ہوں گے وہ پانچ سو ہوں گے جبکہ سائل کی حاضری صرف شہادت کی سطع پر کیسوں میں ہونا ہوتی ہے جو کہ وکیل صاحب کے بغیر نہیں ہوسکتی ا یک عدالت میں اگر ایک دن میں پندہ لوگوں کی گواہیاں ہونی ہیں تو اِس میں صرف اُن پندرہ لوگوں نے شہادت کے لیے آناہے۔ اِس طرح وکلاء کا اکٹھ ایک جگہ بہت زیادہ کرلینا کیا یہ رش نہ ہے۔ سائل کے اگر اوہ کیس بھی ہیں تو پھر اسے دیگر کورٹس میں بھی جانا ہو گا۔ پس اس طرح سائل اور وکیل کو شٹل بنا دیا گیا ہے۔ سول مقدمات کی سماعت کے لیے سائلین ریفرنس کے ذریعہ سے وکیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا ہے جو بھی کچہری میں وکیل مل گیا اُسے ہی اپنا وکیل کر لیا۔ سول مقدمات برسوں چلتے ہیں تو اِس طرح وکلاء کو ہر تحصیل میں سارا دن گھمائے جانے کا کیا مقصد ہے وکیل جب لاہور کی پانچ چھ تحصیلوں میں کیس کے لیے جائے گا تو وہ ہر تحصیل میں کیس پر اُس طرح توجہ کیسے دئے سکتا ہے جیسے اگر ایک ہی جگہ پر کیسیز چل رہے ہوں تو وہ بہتر کام کرسکتا ہے۔ کراچی کا کل رقبہ 3,530 مربع کلو میٹر ہے اور اِسکی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے اور اسکے سات اضلاع ہیں۔ تمام کورٹس پورے کراچی کی ایک جگہ ہی یکجا ہیں جبکہ لاہور کی آبادی ڈیرھ کروڑ سے کم ہے اور اِس کا رقبہ404 مربع کلومیٹر ہے۔ یوں لاہور کی سول کورٹس کو شہر کے مختلف کونوں میں پھیلانا انصاف کے قتل کے مترادف ہے کیونکہ اِس طرح سائلین کے کیسوں کی سماعت میں بھرپور ان پٹ دینے کے لیے وکلاء کو پورے شہر میں چرخی کی طرح گھومنا پڑئے گا اسِ سے نقصان سائلین کو ہوگا۔ کیس کی لاگت بڑھ جائے گی اور وکلاء سول کیسوں کو جو ایک جگہ پر نہیں لڑ سکیں گے اور شتل کاک بنے رہیں گے۔ اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ جو جلد انصاف کی فراہمی کا نعرہ لگایا جاتا ہے عدالتوں کی اِس طرح تقسیم سے اِس موقف کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔ اِس لیے بہتر تو یہ ہے کہ سول مقدمات کے ساتھ چھیڑ چھیڑ نہ کی جائے اور بہتر ہوگا کہ لاہو رکی تمام عدالتوں کو ایک جگہ ہی اکھٹا کردیا جائے تاکہ سائلین جو پہلے ہی اِس نظام انصاف سے شاکی ہے وہ مزید مشکلات کا شکار نہ ہوں
MY PRACTICE AREAS
Family Law
Claritas est etiam processus dynamicus, qui sequitur mutationem consuetudium lectorum.
Business Law
Claritas est etiam processus dynamicus, qui sequitur mutationem consuetudium lectorum.
Trust & Estates
Claritas est etiam processus dynamicus, qui sequitur mutationem consuetudium lectorum.
Civil Litigation
Claritas est etiam processus dynamicus, qui sequitur mutationem consuetudium lectorum.
WHAT SAY MY CLIENTS:
AS PUBLISHED ON
My YOUTUBE CHANNEL
My BLOG & GALLERY
REQUEST A FREE CONSULTATION
Fill out the form below to recieve a free and confidential intial consultation.